مرگی ایک دماغی مرض کا نام ہے، اس میں دفعتا”بیہوشی طاری ہو جاتی ہے، اعصاب تنفس کے تشنج اور سانس لینے کے منفذ کے بند ہونے سے اعصاب اختیاری، بے اختیار شدت سے پھڑکنے لگتے ہیں۔ دنیا بھر میں تقریبا 50 ملین لوگ مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں۔
مرگی کو عام طور پر ادویات کے ساتھ قابو میں رکھا جاتا ہے، لیکن علاج ادویات کے ساتھ نہیں ہوتا۔ تاہم بہترین دستیاب ادویات کے ساتھ بھی 30 فی صد لوگوں مرگی پر کنٹرول نہیں ہوتا۔ مشکل معاملات میں جراحت پر غور کیا جا سکتا ہے۔
مریض کی مرض کے وقت حالت
مرگی یا مرگی کے دورے ایسی اصطلاحیں ہیں جو سخت طبی عدم توازن یا اس کی علامات پر دلالت کرتی ہیں۔ جن کی خصوصیت تشنج کے بار بار پڑنے والے دورے ہیں جن میں مریض یا تو مکمل بیہوش ہو جاتا ہے یا اس کا ہوش کم ہو جاتا ہے۔ اس میں جسم کے پٹھے کبھی پھڑپھڑاتے ہیں کبھی نہیں۔ عام اور زیادہ ہولناک دورے وہ ہوتے ہیں جن کو (Grand Mal Epilepsy) کہتے ہیں۔ ایک مثالی حملے میں مریض فورا” بے ہوش ہو جاتا ہے۔ بے ہوش ہوتے ہی مریض کے منہ سے چیخنے کی آوازیں آتی ہیں، جب کہ نرخرے، دھڑ، سر اور ہاتھ کے پٹھوں میں سخت اینٹھن پیدا ہو جاتی ہے۔ مریض اگر اس وقت کھڑا ہو تو زور سے زمین پر گر سکتا ہے۔ زبان دانتوں میں آکر زخمی ہو سکتی ہے۔ اعضا سخت ہو جاتے ہیں اور سر ایک طرف کو مڑ جاتا ہے۔ چہرہ پہلے زرد ہوتا ہے لیکن جب سانس رکتا ہے اور نظام تنفس کے عضلات میں تشنج رونما ہوتا ہے تو چہرہ پہلے نیلا اور پھر ارغوانی رنگ کا ہو جاتا ہے۔ بیس یا تیس سیکنڈ کے بعد دورے کا پہلا مرحلہ تقریبا یک لخت ختم ہو جاتا ہے اور دوسرا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ شدید مگر متوازن جھٹکوں سے عبارت ہوتا ہے جو سارے عضلاتی نظام کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ مرحلہ عموما” تیس سیکنڈ سے لے کر سو سیکنڈ تک رہتا ہے۔ اس مرحلے میں سانس گہری ہو جاتی ہے جو خراٹوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور منہ سے جھاگ دار تھوک نکلتا ہے جس میں اکثر خون کی آمیزش ہوتی ہے۔ زیادہ سخت دوروں کی شکل میں امعاے مستقیم اور مثانے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے مریص پیشاب اور پاخانے کو روک نہیں پاتا۔ اس مرحلے کے بعد مریض سونے کی طرف مائل ہوتا ہے اور گھنٹہ بھر یا اس سے زیادہ وقت سوتا رہتا ہے۔
اسلام اور مرگی
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، مرگی کا مرض دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک ارواح خبیثہ کی وجہ سے اور دوسرا اختلاط رویہ کے سبب سے ہوتا ہے۔ اس دوسری قسم میں اطباء بحث کرتے ہیں لیکن ارواح خبیثہ (اور شیاطین) والی مرگی کا علاج دعاؤں سے ہوتا ہے۔ گویا کہ یہ دشمن سے جنگ کرنا ہے۔ لڑنے والے کو چاہئیے کہ اس کے ہتھیار صحیح اور بازو قوی ہوں۔ بعض معالجین اس کا علاج یہ دعا پڑھ کر کرتے ہیں۔
اُخرُج مِنہُ مَا یَقُولُ بِسمِ اللہِ وَمَا یَقُولُ لاَ حَولَ وَلاَ قُوۃَ اِلاَ العَلِی العَظِیمِ
اور تاجدار انبیا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس کا علاج یوں فرمایا کرتے تھے۔
اُخرُج عَدُوَاللہِ اَنَا رَسُولُ اللہِ۔ “یعنی اے دشمن خدا (شیطان) نکل جا۔“ میں اللہ تعالٰی کا رسول ہوں۔ بعض معالجین آیت الکرسی پڑھ کر دم کرتے ہیں ارو مرگی کے مریض کو معوذات کی تاکید کرتے ہیں۔ (مدارج)
مرگی والے کے کانوں میں اذان دینے سے خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم کو جنتی عورت دکھاؤں؟ میں نے کہا، ہاں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، یہ سیاہ عورت میرے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا، مجھے صرع کا مرض ہے اور رُسوا ہو جاتی ہوں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم چاہو تو صبر کرو، تمہارے لیے جنت ہے۔ اگر چاہو تو دعا کردوں کہ تم کو عافیت عطا ہو۔ اس نے کہا کہ میں صبر کروں گی۔ پھر کہا کہ میں رُسوا ہو جاتی ہوں تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ (بخاری و مسلم شریف) اس حدیث سے علاج اور دوا کے ترک پر روشنی پڑتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا صرح اس طرح کا ہو کہ علاج ارواح میں دعا سے جو کام ہوتا ہے، وہ اطباء کے علاج سے نہیں ہوتا اور یہ کہ دعا کا اثر اوت تاثیر اور اس کا عمل اور طبیعت کا اس سے متاثر ہونا اور اس کا انفعال قبول کرنا دواؤں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ تاجدار انبیا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایسے مرض کو پورے استقلال و صبر سے برداشت کرنے پر جنت کا وعدہ فرمایا اور دعا فرمائی کہ وہ عریاں نہ ہونے پائے مگر اس عورت نے صبر اور عریاں نے ہونے کو پسند کیا۔