Featured Products
Articles Related to Herbs
Know More
HISTORY OF TIB E UNANI /تاریخ طب یونانی
خلیفہ ﺍﻟﻤﻨﺼﻮﺭ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ ﺧﻼﻓﺖ ﺳﮯ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻭﯾﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺍٓﻣﺪ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﮐﯽ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﺗﮏ پہچانا ﺗﮭﺎ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪﮐﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻨﺪﯼ ﻃﺒﯿﺐ ﻣﻨﮑﮧ ﮐﻮ ﺑﻐﺪﺍﺩﻣﺪﻋﻮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﻮ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﯽ شفاء ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺑﻨﺎ. ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﮐﯽ ﻋﻠﻢ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺨﺎﻭﺕ ﮐﮯ ﭼﺮﭼﮯ ﺳُﻦ ﮐﺮ ﮨﻨﺪﯼ ﻭﯾﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺤﮑﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻭﯾﺪ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺑﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮨﺮ ﺗﮭﮯ. ﻣﻨﮑﮧ ﺍﻟﮩﻨﺪﯼ ﻧﮯ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﮐﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮐﺘﺎﺏ ﭼﺮﮎ ﺳﻨﮩﺘﺎ ﮐﺎ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﺸﺮﺕ ﺳﻨﮩﺘﺎ ﮐﺎﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﯼ ﻃﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﺍﺳﺘﻔﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ. ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺍﺯﯼ ﺍﺑﻦ ﺑﯿﻄﺎﺭ ﺭﺑﻦ ﻃﺒﺮﯼ ﻧﻮﺡ ﺍﻟﻘﻤﺮﯼ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻃﺒﺎﺀ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﯼ ﻃﺐ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺜﺮﺕ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ. ﻋﻠﻢ ﺍﻻﺩﻭﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﺎﺹ ﺍﺛﺮ ﺩﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻃﺮﯾﻔﻞ ﺳﺎﻡ ﭘُﭧ ﮔﺠﺮ ﭘُﭧ ﺟﯿﺴﯽ ﺍﺻﻄﻼﺣﺎﺕ ﮨﻨﺪﯼ ﻃﺐ ﮨﯽ ﺳﮯ ﻣﺎﺧﻮﺫ ﮨﯿﮟ. ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﺧﺬ ﻭ ﺍﺳﺘﻔﺎﺩﮦ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﺩﻭﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﯽ ﮔﺌﯿﮟ. ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﻃﺐ ﺟﺎﻣﻊ ﮐﻤﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﮨﻨﺪﯼ ﺍﻃﺒﺎﺀ ﮐﮯ ﺭﺑﻂ ﻣﯿﮟ ﺍٓﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﺗﻨﺎ ضرور ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﮐﮯ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﻤﺮﻗﻨﺪ اﺻﻔﮩﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﻣﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﻧﺌﮯ ﻋﻠﻤﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺍﺑﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ. ﺍﻥ ﻋﻠﻤﯽ ﺩﺭﺳﮕﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﻃﻠﺒﺎﺀ ﻃﺐ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻟﮕﮯ. ﺍٓﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺳﯽ ﮐﺘﺐ ﺑﺎﻟﮑﻠﯿﮧ ﻭﮨﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻃﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺧﻄﻮﻁ ﭘﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺑﻘﺮﺍﻃﯽ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﻄﻖ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ. ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻃﺒﺎﺀ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﺷﮧ ﭘﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺧُﺮﺩ ﺑُﺮﺩ ﻭ ﺿﯿﺎﻉ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻟﯿﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﻐﺮﺏ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻋﻠﻮﻡ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮧ پھنچ ﭘﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﻋﻠﻤﯽ ﺫﺧﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ. ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺑﮍﮬﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﻋﺮﺑﯽ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺣﮑﻤﺖ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ ﺑﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍٓﺏ ﻭﺗﺎﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﭙﯿﻦ پھنچے ﺟﮩﺎﮞ ﺗﯿﺰﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﺌﮯ ﻣﺪﺍﺭﺱ ﺗﺸﮑﯿﻞ ﭘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﻗﺮﻃﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﮐﺘﺐ ﺧﺎﻧﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ۳ ﻻﮐﮫ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ. ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺴﻠﯽ ﻃﻼﻃﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻠﻤﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮۓ. ﺍﺱ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﻃﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﻌﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﺮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻓﻦ ﻗﺪﯾﻢ ﻃﺒﯽ ﺧﺰﺍﺋﻦ ﮐﮯ ﺩﯾﺎﻧﺖ ﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ. ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻞ ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﻧﻘﻮﺵ ﻭ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺟﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ہیں. ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﻃﺐ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺍں قدر ﺍﺿﺎﻓﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﮯ. ﻃﺐ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺴﺎﺏ ﺍﻥ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﯿﺎ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﺎﺻﻞ. ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭﯼ ﻭ ﺩﯾﺎﻧﺖ ﮐﯽ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻣﺜﺎﻝ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻌﺘﺮﻑ. ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓ ﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﻃﺐ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ .ہے ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﺫﺧﯿﺮﮦ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺍٓﯾﺎ ﺟﻮ ﮐﺌﯽ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮨﮯ. ﺍٓﭨﮭﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﺳﮯ ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﺩﺑﺪﺑﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﺎ. ﻋﻤﻞ ﺟﺮﺍﺣﯽ ﻓﺼﺪ ﺣﺠﺎﻣﺖ ﺗﻌﻠﯿﻖ ﻋﻤﻞ ﮐﺌﯽ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺟﺪﯾﺪ ﺍﺿﺎﻓﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﮯ. ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺎ ﺳﮩﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﻋﺮﺏ ﻃﺒﯿﺐ ﺍﺑﻦ ﻧﻔﯿﺲ ﮐﮯ. ﺳﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭼﮫ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻭﻟﯿﻢ ﮨﺎﺭﻭﮮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﭽﮏ ﮐﺎ ﭨﯿﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻔﻦ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺭﺍﺯﯼ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ. ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺷﻔﺎ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺻﺤﺘﻤﻨﺪ ﺟﮕﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺭﺍﺯﯼ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﻟﭩﮑﻮﺍﺩﯾﺌﮯ ﭘﮭﺮ ﺟﺲ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ. ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺘﻌﻔﻦ ﮨﻮﺍ ﺍﺳﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﯽ ﺍٓﺏ ﻭ ﮨﻮﺍ ﮐﻮ ﺷﻔﺎ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺭﺍﺯﯼ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﺮﺍﺛﯿﻢ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﺗﮭﺎ. ﺍﻣﺮﺍﺽ ﭼﺸﻢ ﭘﺮ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻃﺒﯽ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮑﺜﺮﺕ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻟﮑﮭﯽ گٸی ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﯾﻮﺭﭖ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﮔزﺭ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ. ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺷﻤﻌﯿﮟ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﮩﺪ ﮐﯽ ﺗﺼﻨﯿﻔﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﺭﭖ ﻧﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﺮﺕ ﺳﮯ ﻋﺮﺑﯽ ﺗﺼﺎﻧﯿﻒ ﮐﮯ ﻻﻃﯿﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮯ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ. ﺍﺑﻦ ﺳﯿﻨﺎ ﮐﯽ ﺍﻟﻘﺎﻧﻮﻥ ﺭﺍﺯﯼ ﮐﯽ ﺍﻟﺤﺎﻭﯼ ﻣﺠﻮﺳﯽ ﮐﯽ ﮐﺎﻣﻞ ﺍﻟﺼﻨﺎﻋۃ ﺯﮬﺮﺍﻭﯼ ﮐﯽ ﺍﻟﺘﺼﺮﯾﻒ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ تصانیف ﮐﺎ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺘﺮہوﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﺗﮏ ﯾﻮﺭﭖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻧﺼﺎﺏ ﺭﮨﯿﮟ ﻟﮩﺬﺍ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﯾﻮﺭﭖ ﻧﮯ ﺗﺮﺍﺟﻢ ﮐﺌﮯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﺘﺮﺍﺩﻑ ﮨﮯ. ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺟﻨﺎﺏ ﺣﮑﯿﻢ ﺳﯿﺪ ﻇﻞ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻧﮯ ﺣﯿﺪﺭﺍٓﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ کہ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﻃﺐ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﺎﺑﻠﯽ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮦ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻃﻠﺒﮧ ﻭ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺭکھنی ﭼﺎﮨﯿﮯ اﻭﺭ ﯾﮧ ﻃﺐ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ کی ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺮتی ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﻃﺐ ﺳﮯ ﺧﺎﺹ ﻟﮕﺎٶ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ۔ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮﯾﺎﺕ ﺍﺗﻨﮯ ﺳﺎﺋﻨﭩﻔﮏ ﺍﺗﻨﮯ ﺟﺎﻥ ﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﮯ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺌﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮی ﻃﺐ ﺳﮯ ﻣﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ کہ ﮐﭽﮫ ﺳﺎﺩﮦ ﻟﻮﺡ ﻃﺒﯿﺒﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﻃﺐ ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻭﺍﺋﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﻈﺎﻡ ﮨﺎﺋﮯ ﻃﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮨﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺏ ﻭ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ پہنچ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺴﻠﻢ ﺳﻠﻄﻨﺘﯿﮟ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﺤﮑﺎﻡ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻓﺮ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﺭﮨﺎ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﻋﺮﺏ ﺍﻭﺭ ﻋﺠﻢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺮﮐﺰ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺴﻠﺴﻞ ﻋﮩﺪ
Hijama/حجامہ
یہ قدیم طرز علاج ہے جسم کے کسی حصے پر کپ لگا کر خلاءیعنی Partial vacuum پیدا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس حصہ پر مقامی ہیجان خون Localized Congestion واقع ہوتا ہے۔ کچھ لمحہ بعد کپ کو نکالا جاتا ہے اور اس مقام پر بغیر کسی تکلیف کے فاسد خون کا اخراج کیا جاتا ہے۔ حجامہ کی وجہ سے کھنچاؤ اور گرمی پیدا ہوتی ہے وہ ان نظاموں کو درست کرتی ہے جس کی وجہ سے آسانی سے مریض کو آرام ملتا ہے اور شفایاب ہوتا ہے۔ حجامہ کے تین اقسام ہیں۔ 1 تر حجامہ Wet cupping 2 خشک حجامہ Dry Cupping 3 حجامہ مساج Cupping Massage تر حجامہ : اس کے ذریعہ جسم کے کسی خاص points پر باریک اور چھوٹے Incisions دے کر خون نکالا جاتا ہے اگر فاسد مادہ زیادہ ہو تو تر حجامہ کی جاتی ہے اس کو نبی کریم صلی اللی علیہ وسلم نے بھی پسند فرمایا ہے۔ خشک حجامہ : اس میں کسی خاص حصہ points پر Cups لگایا جاتا ہے ۔ حجامہ مساج: یہ بھی Dry Cupping کی طرح ہی ہوتا ہے جو ایک قسم کا مساج ہے۔ حجامہ اور Cupping مساج میں جسم کے اس مقام پر جہاں مساج کی ضرورت ہوتی ہے خاس تیل لگا کر ہاتھ سے ہلکا پھیلا دیا جاتا ہے اور پھر اس مقام پر Cups لگا کر Massage کیا جاتا ہے۔ تاریخ یہ طریقہ علاج 3500 سال سے بھی پرانا ہے۔ اس طریقہ علاج کا ذکر Ebers Papyrus نامی کتاب میں بھی ہے جو 1550 قبل مسیح کی مشہور طبی کتاب ہے۔ طریقہ کار اس کا طریقہ یہ ہے کہ مقام مطلوب پر کسی نشتر سے خفیف نشتر لگا کر کپ یعنی سینگی لگا کر کھینچا جاتا ہے۔ سنت رسول پچھنا لگانا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود پچھنے لگوائے اور دوسروں کو ترغیب دی۔ امام بخاری اپنی صحیح میں حجامہ پر پانچ ابواب لائے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب معراج پر تشریف لے گئے تو ملائکہ نے ان سے عرض کی کہ اپنی امت سے کہیں کہ وہ پچھنے لگوائیں۔ ” حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ حَدَّثَنَا کَثِيرُ بْنُ سُلَيْمٍ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بِمَلَإٍ إِلَّا قَالُوا يَا مُحَمَّدُ مُرْ أُمَّتَکَ بِالْحِجَامَةِ ترجمہ:حبارہ بن مغلس، کثیر بن سلیم، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا شب معراج میں جس جماعت کے پاس سے بھی میں گزرا اس نے یہی کہا اے محمد! اپنی امت کو پچھنے لگانے کا حکم فرمائیے [1]۔ “ ” حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَکْرُ بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِعْمَ الْعَبْدُ الْحَجَّامُ يَذْهَبُ بِالدَّمِ وَيُخِفُّ الصُّلْبَ وَيَجْلُو الْبَصَرَ ترجمہ: ابوبشر بکر بن خلف، عبد الاعلیٰ، عباد بن منصور، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اچھا ہے وہ بندہ جو پچھنے لگاتا ہے۔ خون نکال دیتا ہے۔ کمر ہلکی کر دیتا ہے اور بینائی کو جلا بخشتا ہے۔ [2] “ تنقید کسی بھی مروجہ طریقے سے علاج کرانا سنت ہے۔ اب بہت سے نئے طریقے آ چکے ہیں تو ان سے بھی علاج کرایا جا سکتا ہے۔ استعمال پچھنا ایک قدیم علاج ہے جو بہت مفید ہے۔ یہ گرم اور سرد دونوں علاقوں میں مفید ہے۔ چین کا یہ قومی علاج ہے اور پورے ملک میں یہ علاج کیا جاتا ہے۔ یہ عرب ممالک کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں بھی رائج ہے۔ امریکا اور یورپ کے یونیورسٹیوں میں ان طلبہ کو جو آلٹرنیٹیو میڈیسن پڑھ رہے ہیں حجامہ پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ فوائد خون صاف کرتا ہے، حرام مغز کو فعال بناتا ہے اور شریانوں پر اچھا اثر ڈالتا ہے۔ پٹھوں کے اکڑاؤ کو ختم کرنے کے لیے مفید ہے۔ دمہ اور پھیپھڑوں کے امراض اور انجائنا کے لیے مفید ہے۔ سر درد، سر اور چہروں کے پھوڑوں، درد شقیقہ اور دانتوں کے درد کو آرام دیتا ہے۔ آنکھوں کی بیماریوں میں مفید ہے۔ رحم کی بیماریوں اور ماہواری کے بند ہوجانے کی تکالیف اور ترتیب سے آنے کے لیے مفید ہے۔ گھٹیا، عرق النساء اور نقرس کے دردوں میں مفید ہے۔ فشار خون میں آرام پہنچاتا ہے۔ کندھوں، سینہ اور پیٹھ کے درد میں مفید ہے۔ کاہلی، سستی اور زیادہ نیند آنے کی بیماریوں میں مفید ہے۔ ناسور، دنبل، مہاسوں اور خارش میں مفید ہے۔ دل کے غلاف اور ورمِ گردہ میں مفید ہے۔ زہر خورانی میں مفید ہے۔ مواد بھرے زخموں کے لیے مفید ہے۔ الرجی میں مفید ہے۔ جسم کے کسی حصہ میں درد ہو تو اس جگہ پچھنا لگانے سے فائدہ ہوگا۔ صحت یاب لوگ بھی حجامہ کرا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ سنت ہےاور اس میں بیماریوں سے روک ہے۔ حوالہ جات سنن ابن ماجہ : جلد سوم، باب طب: حدیث نمبر 360 سنن ابن ماجہ:جلد سوم، طب کا بیان: حدیث نمبر 359 ویکیپیڈیا