پاگل پن کی اصطلاح علم طب و طب نفسی کی نسبت قانونی و معاشرتی پہلو زیادہ رکھتی ہے جبکہ طب میں پاگل پن کی اصطلاح کسی ایک بیماری کے لیے نہیں آتی بلکہ آج کل طب میں یہ ایک علامت ہے جو کئی نفسانی امراض میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ لاحق ہونے والے اس نفسیاتی اضطراب کی کیفیت معاشرے کے اجتماعی پہلوؤں سے اس قدر قربت رکھتی ہے کہ اس کی کوئی ایک واحد و متفقہ تعریف پیش کرنا اسی قدر مشکل کام ہے کہ جیسے دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف پیش کرنا۔ علم طب کی ایک مستند لغت کے مطابق پاگل پن کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ ۔۔۔
اختلالِ عقلی یا اضطرابِ عقلی، طبی کی بجائے ایک قانونی اصطلاح جو ایک ایسی کیفیت کو بیان کرتی ہے کہ جس کے باعث کوئی شخص کسی بھی جرم کی مجرمانہ جوابدہی سے مستشنیٰ ہو جائے اور گناہگار نا ٹہرایا جاسکے۔
جیسا کہ مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوچکا ہے کہ موجودہ علم طب میں گو پاگل پن کی کیفیت کا مفہوم تو وہی ہے کہ جو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس اصطلاح کو معالجہ و تحقیق میں بطور ایک مخصوص بیماری کی اصطلاح کے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاگل پن کی تفریقی تشخیص کو نظرانداز نا ہونے دیا جائے یعنی یہ پاگل پن کی علامت ایک اسے زائد نفسانی امراض میں ہوسکتی ہے اور اس کے درست علاج کے لیے یہ تشخیص لازمی ہے کہ متعلقہ مریض میں اس کی اصل وجہ کون سی نفسانی کیفیت ہے تاکہ ایک معالج اسی وجہ پر خصوصی توجہ دے کر معالجہ فراھم کرسکے۔
طبی وضاحت
جیسا کہ مذکورہ بالا تعارفی بیان میں آیا کہ پاگل پن کی کوئی ایک ایسی طبی تعریف نہیں کی جاسکتی کہ جیسے کسی دیگر مرض جسمانی (طاعون یا سل وغیرہ) کی کی جاسکتی ہے، طبی اعتبار سے تو پاگل پن ایک ایسی کیفیت ہے کہ جو ایک سے زائد نفسانی و نفسیاتی امراض میں رونما ہوسکتی ہے (ایسی کیفیات کو عام طور پر طب میں عقلی اضطرابات کے زمرے میں رکھا جاتا ہے)۔ پاگل پن کی طبی تعریف کرتے وقت جس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھنا ہوگا وہ اسی قسم کی ان کیفیات سے تفریقی تشخیص کا ہے جو دیگر ایسی جسمانی حالتوں میں پیدا ہوسکتی ہیں کہ جو فی الحقیت دماغ میں کسی مستقل (یا کم از کم طویل المعیاد) نفسانی خلل کے بغیر ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ہیجان اور بخاری ہذیان وغیرہ۔ اس پہلو کو مدنظر رکھ کر اگر پاگل پن کو طبی انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہ سکتے ہیں کہ ۔۔۔
عقلی افعال میں کسی بھی قسم کا ایسا شدید اختلال یا خلل کہ جو یا تو مستقل ہو یا کم از کم طویل المعیاد ہو اور جس کی وجہ سے ذکاء اور حکمت اس قدر متاثر ہو جائے کہ وہ شخص اپنے رویۓ کا شعور کھو بیٹھے تو ایسی کیفیت کو عام طور پر پاگل پن میں شمار کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اس قسم کی کیفیت پیدا کرنے والے دیگر اضطرابات کو خارج از امکان کیا جاچکا ہو۔
مندرجہ بالا سطور میں پیش کردہ بیان صرف ایک ایسا بیان ہے کہ جو طبی اعتبار سے مختلف کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے عام زبان میں پاگل پن کہلائی جانے والی اصطلاح کی طبی وضاحت پیش کرتا ہے، اسے پاگل پن کی طبی تعریف نہیں سمجھنا چاہیے۔
قانونی وضاحت
قانونی اعتبار سے پاگل پن ایک ایسی کیفیت کا نام ہے کہ اگر اس کیفیت کو کسی ماہر کی جانب سے موجود قرار دے دیا جائے تو اس سے متاثرہ شخص کو کسی غیر قانونی فعل یا جرم سے دفاع کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ اس دفاع کا اطلاق اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ مدعی علیہ اس عدلیہ کی عملداری یا حدود عدلیہ کی پاگل پن کی تعریف پر پورا نا اترے۔ عام طور پر قانونی اداروں میں ایسی نفسیاتی کیفیت کہ جس میں عقل سلیم کا وجود ناپید تسلیم کیا جاتا ہو تو وہ اس قانونی دفاع کے حصول کے لیے قابل استعمال سمجھی جاتی ہے، مثال کے طور پر ذُھان کو اس پس منظر میں قبول کیا جاسکتا ہے جبکہ اضطراب شخصیت کو پاگل پن کے طور پر کسی عدلیہ میں عموما تسلیم نہیں کیا جاتا۔ طب الشرعی کے نفسیاتی ماہرین بعض اوقات ایسے افراد کا معائنہ کرتے ہیں کہ جو کسی ارتکاب جرم میں گرفتار کیے گئے اور انکی ذہنی حالت مشکوک ہو۔ عام طور پر مختار دفاع وہ شخصیت ہے کہ جو اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے کہ عدالتی کاروائی پر مدعی علیہ کی موجودہ حالت دیکھ کر فیصلہ کرے کہ وہ عدالت میں پیش ہو سکتا ہے کہ نہیں، مزید یہ کہ اس کی ذہنی حالت اس وقت کیا تھی کہ جب اس سے جرم سرزد ہوا تھا۔بآسانی شناخت ہونے والا مرض ہے. مریض کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے مریض شور و غل کرتا.،اچھلتا کودتا بھاگتا ہے، تیمارداروں کو مارنا، گالیاں بکنا، جو منہ میں آئے بکنا، پاگل پن کی خاص علامات ہیں. گھریلو پریشانیاں، رنج و غم پاگل کتے کے گاٹنے سے پاگل پن کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں. اس کی خاص شناخت یہ ہے کہ پاگل کتے کے کاٹے کا مریض پانی سے ڈرتا ہے پانی پی نہیں سکتا. دوسروں کو کاٹنے کو دوڑتا ہے