Search

The human brain/انسانی دماغ

آپ کو یاد ہوگا کہ جب آپ بہت چھوٹی عمر کی تھیں یا تھے تو آپ کا دل اپنی امی سے کہانیاں سننے کا چاہتا تھا اور آج بھی جب آپ اپنے اسکول یا مدرسے سے واپس آئیں تو کبھی آپ کا دل کھیلنے کا چاہتا ہے اور کبھی آپ کا دل اپنی پسند کی کہانیوں کی کتاب پڑھنے کا چاہتا ہے۔ کبھی آپ کا دل چٹ پٹے چھولے کھانے کا چاہتا ہے اور کبھی آپ کا دل ٹھنڈی ٹھنڈی آئس کریم یا برف ملائی کھانے کا چاہتا ہے۔ لیکن آج ہم آپ کو ایک دلچسپ بات ایسی بتاتے ہیں جس پر آپ نے شاید کبھی غور نہیں کیا ہوگا اور وہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوپر لکھی ہوئی اتنی ساری مزیدار باتیں کرنے کو آپ کا دل نہیں بلکہ آپ کا دماغ چاہتا ہے! آج انسان نے سائنس میں اس قدر ترقی کر لی ہے کہ انسان کے جسم میں موجود ہر حصے کا اپنا اپنا کام بہت ہی واضح ہو گیا ہے، آج کی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کا دل نا تو کچھ چاہنے کی طاقت رکھتا ہے اور نا ہی کچھ نا چاہنے کی بلکہ یہ چاہنے اور نا چاہنے کا سارا کام انسان کے جسم کا جو حصہ انجام دیتا ہے اسے دماغ کہتے ہیں۔

Human brain and skull
انسانی دماغ
Cerebral lobes: the frontal lobe (pink), parietal lobe (green) and occipital lobe (blue)
Cerebral lobes: the frontal lobe (pink), parietal lobe (green) and occipital lobe (blue)
جسم میں دماغ کی جگہ دکھائی گئی ہے؛ نازک دماغ سخت کھوپڑی کی حفاظت میں ہوتا ہے۔
جسم میں دماغ کی جگہ دکھائی گئی ہے؛ نازک دماغ سخت کھوپڑی کی حفاظت میں ہوتا ہے۔

  دماغ کیسے بنتا ہے؟

ہمارا دماغ مختلف اقسام کے خلیات سے مل کر بنتا ہے، ان خلیات میں سے کچھ تو اصل کام کرنے والے خلیات ہوتے ہیں جن کو عصبون کہا جاتا ہے جبکہ کچھ خلیات ان اصل کام کرنے والے خلیات یعنی عصبون کو سہارا اور امداد فراھم کرنے والے خلیات ہوتے ہیں ؛ ان امدادی خلیات کو سریشہ کہا جاتا ہے۔ دماغ کے ان اصل کام کرنے والے خلیات اور امدادی خلیات کی مثال کو آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے کسی گھر میں بجلی کے تار بچھائے uuuu جاتے ہیں، گھر میں پھیلائے جانے والے اس بجلی کے نظام میں کچھ حصے تو اصل کام کرنے والے ہوتے ہیں جیسے تار وغیرہ (جو بجلی کو پنکھے یا استری تک لے کر جاتے ہیں) جبکہ باقی حصے (جیسے لکڑی یا پلاسٹک کے ڈبے وغیرہ) ان بجلی کے تاروں iiii کو سہارا فراہم کرنے کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں ؛ بس آپ سمجھنے میں آسانی کی خاطر کسی گھر میں بچھائے گئے بجلی کے نظام میں موجود اصل تاروں کو دماغ کے عصبون اور لکڑی یا پلاسٹک کے ڈبوں کو دماغ کے سریشہ خلیات کے طور پر تصور کر سکتے ہیں۔

دماغ کا تار نما ایک خلیہ جسے عصبون کہا جاتا ہے، ہر عصبون خلیے میں ایک جسم ہوتا ہے جو شکل میں الٹے سرے پر نظر آرہا ہے اور اس جسم سے ایک تار یا دھاگے نما لمبا سا حصہ دم کی صورت نکلتا ہے جو اس شکل میں سیدھی جانب بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
دماغ کا تار نما ایک خلیہ جسے عصبون کہا جاتا ہے، ہر عصبون خلیے میں ایک جسم ہوتا ہے جو شکل میں الٹے سرے پر نظر آرہا ہے اور اس جسم سے ایک تار یا دھاگے نما لمبا سا حصہ دم کی صورت نکلتا ہے جو اس شکل میں سیدھی جانب بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔

دماغ کے عصبون خلیات ایسے ہی معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں کہ جیسے بجلی کے تار بجلی کو منتقل کرتے ہیں۔ جس طرح بجلی ایک تاروں میں کرنٹ کی صورت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرتی ہے اسی طرح دماغ کی معلومات یعنی سوچ اور خیالات وغیرہ بھی کرنٹ کی صورت میں تار نما عصبون خلیات میں سفر کرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے ہیں۔

 تانے بانے ترميم

تار نما عصبون خلیات کا تانا بانا دماغ میں ایک نہایت ہی نازک اور بہت ہی اعلٰی تنظیم کے ساتھ یوں بنا گیا ہے جیسے کوئی مہنگا قالین دھاگوں کے تانوں بانوں سے بن دیا جاتا ہے۔ یہ تار نما خلیات اپنے اپنے مخصوص راستے رکھتے ہیں اور اپنے اندر سفر کرنے والی معلومات و خیالات کو بالکل درست اور صحیح صحیح مقام تک پہنچا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ خلیات جو درد یا تکلیف کی معلومات کو پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں وہ اگر آپ کے ہاتھ پر کوئی سوئی چبھ جائے تو درد کی معلومات کو مخصوص راستے سے گذرتے ہوئے دماغ کے اس حصے میں لے کر جاتے ہیں جو درد کو محسوس کرنے کا کام کرتا ہے اور اسی طرح آنکھ اور دیکھنے کی قوت سے تعلق رکھنے والے عصبون خلیات نظر آنے والی چیزوں کی معلومات کو مخصوص راستوں سے گذارتے ہوئے دماغ کے اس حصے میں پہنچا دیتے ہیں جو دیکھنے کا کام کرتا ہے۔

Product Review Video Heading